ایک مرتبہ حضرت عمر رض ساری کائنات کے پیغمبر محمد ﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ چٹائی پر لیٹے ہوۓ ہیں ، آپ نے عمر رض کو دیکھ کر اپنا تہبند درست کیا ، آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑا ہوا تھا ،اس وقت آپ کے پاس صرف یہی کپڑا تھا ، آپ کے سر کے نیچے ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا ، آپ کے قدموں کی جانب کچھ پتے پڑے تھے ( جن سے چمڑا رنگا جا تا ہے ) ، دیوار پر ایک کچا چمڑا بھی لٹکا ہوا تھا، عمر رض نے آپ کے قریب ایک صاع ( اڑھائی کلو ) کے قریب جو بھی دیکھے ۔
یہ منظر دیکھ کر عمر رض کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ عمر ! کیوں روتے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا ، اے اللہ کے رسول! کیا اب بھی مجھے رونانہیں چاہیے کہ چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر ثبت ہو چکے ہیں اور آپ کا مختصر سا سامان بھی میرے سامنے ہے ،حالانکہ آپ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں ، جبکہ ادہر روم اور ایران کے بادشاہوں کو میں نے ناز و نعم اور عیش وعشرت کی بہاروں میں دیکھا ہے ۔
اس پر آپ ﷺ نے ارشادفرمایا، اے عمر ! کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ ہمارے لیے آخرت کی نعمتیں ہیں اور انہیں صرف دنیا میں ہی مل رہا ہے؟ اس پر عمر رض نے فرمایا ، جی ہاں ، کیوں نہیں!۔ (صحیح مسلم)
جس آخرت کی فکر ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تھی اسی آخرت کا کچھ بیان زیر نظر کتاب میں ہے ۔ یہ کتاب بنیادی طور پر تین ابواب پرمشتمل ہے۔ پہلا باب قیامت کا بیان ہے جس میں اثبات قیامت کے دلائل، منکرین قیامت کی تردید ،صور میں پھونکے جانے ، قیامت کی ہولنا کیوں ، حشر نشر ، حساب کتاب ، جزا سزا ، شفاعت ، میزان ، حوض کوثر اور پل صراط وغیرہ کا ذکر ہے۔دوسرے باب میں جنت کا بیان ہے جس کے تحت جنت اور اہل جنت کے اوصاف ، جنت کی نعمتوں اور جنت میں لے جانے والے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے ۔ تیسرا باب جہنم کے بیان پرمشتمل ہے جس میں جہنم اور اہل جہنم کے اوصاف جہنم کے عذابوں جہنم میں لے جانے والے اعمال اور جہنم سے بچانے والے اعمال کا تذکرہ ہے ۔ان تمام ابواب میں آیات قرآنیہ اور صحیح احادیث نبویہ سے دلائل مہیا کیے گئے ہیں اور دلائل کی تخریج وتحقیق بھی نقل کی گئی ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اندر فکر آخرت پیدا فرمائے اور روز محشر ہمیں کامیاب و سرخرو کردے۔
(آمین)
کتاب پڑھنے کے لئیے سامپل صفحات کے نیچے ڈاؤن لوڈ بٹن پر کلک کریں شکریہ ۔
کتاب کے نمونے کے صفحات
DOWNLOAD
No comments:
Post a Comment